Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۴(کتاب السیر)
2 - 150
رسالہ

اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام (۱۳۶۵ھ)

(علم کے پہاڑوں کا اعلان کہ بیشک ہندوستان دارالاسلام ہے)
مسئلہ۳تا۵: از بدایوں محلہ براہم پورہ     مرسلہ مرزا علی بیگ صاحب ۱۲۹۸ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:

(۱) ہندوستان دارالحرب ہے یادارالاسلام؟

(۲) اس زمانہ کے یہود و نصارٰی کتابی ہیں یانہیں؟

(۳) روافض وغیرہم مبتدعین کہ کفارہ داخل مرتدین ہیں یانہیں؟جواب مفصل بدلائل عقلیہ ونقلیہ مدلل درکار ہے؟بینواتوجروا۔
جواب سوالِ اول

ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ بلکہ علمائے ثلٰثہ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم کے مذہب پر ہندوستان دارالاسلام ہے ہرگز دارالحرب نہیں کہ دارالاسلام کے دارالحرب ہوجانے میں جو تین باتیں ہمارے امام اعظم امام الائمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک درکار ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں احکام شرک علانیہ جاری ہوں اور شریعتِ اسلام کے احکام و شعائر مطلقا جاری نہ ہونے پائیں اور صاحبین کے نزدیک اسی قدر کافی ہے مگر یہ بات بحمداﷲ یہاں قطعاً موجود نہیں اہل اسلام جمعہ و عیدین واذان واقامت و نماز باجماعت وغیرہا شعائر شریعت بغیر مزاحمت علی الاعلان  ادا کرتے ہیں۔ فرائض، نکاح، رضاع، طلاق، عدۃ، رجعت، مہر، خلع، نفقات، حضانت، نسب، ہبہ،

وقف، وصیت، شفعہ وغیرہا، بہت معاملات مسلمین ہماری شریعت غرابیضاء کی بناپر فیصل ہوتے ہیں کہ ان امور میں حضرات علماء سے فتوٰی لینا اور اسی پر عمل و حکم کرنا حکام انگریزی کو بھی ضرور ہوتا ہے اگرچہ ہنود و مجوس و نصارٰی ہوں اور بحمد اﷲ یہ بھی شوکت و جبروت شریعت علیہ عالیہ اسلامیہ اعلی اﷲ تعالٰی حکمہا السامیہ ہے کہ مخالفین کو بھی اپنی تسلیم اتباع پر مجبور فرما تی ہے والحمد للہ رب العالمین،
فتاوٰی عالمگیریہ میں سراج وہاج سے نقل کیا:
اعلم ان دارالحرب تصیردار الاسلام بشرط واحد وھو اظہار حکم الاسلام فیھا۱؎۔
جان لو کہ بیشک دارالحرب ایک ہی شرط سے دارالاسلام بن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں اسلام کا حکم غالب ہو جائے (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب السیر     الباب الخامس فی استیلاء الکفار     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۲۳۲)
پھر سراج وہاج سے صاحب المذھب سیدنا و مولٰنا محمد بن الحسن قدس سرہ الاحسن کی زیادات سے کہ کتب ظاہر الروایۃ سے ہے نقل کیا:
انما  تصیردار الاسلام دارالحرب عندابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی بشروط ثلاثۃ، احدھا اجراء احکام الکفار علی سبیل الاشتھار وان لایحکم فیھا بحکم الاسلام، ثم قال و صورۃ المسئلۃ ثلاثۃ اوجہ اما ان یغلب اھل الحرب علی دار من دورنا او ارتد اھل مصر غلبوا واجروااحکام الکفر او نقض اھل الذمۃ العھد وتغلبواعلی دارھم ففی کل من ھذہ الصور لاتصیر دارحرب الابثلاثۃ شروط، وقال ابویوسف ومحمدرحمہما  اﷲ تعالٰی بشرط واحد وھو اظہار احکام الکفر وھو القیاس الخ۲؎
امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک دارالاسلام تین شرائط سے دارالحرب ہوتا ہے جن میں ایک یہ کہ وہاں کفار کے احکام اعلانیہ جاری کئے جائیں اور وہاں اسلام کا کوئی حکم نافذ نہ کیاجائے، پھرفرمایا اور مسئلہ کی صورت تین طرح ہے اہلِ حرب ہمارے علاقہ پر غلبہ پالیں یا ہمارے کسی علاقہ کے شہری مرتد ہوکر وہاں غلبہ پالیں  اور کفر کے احکام جاری کردیں یا وہاں ذمی لوگ عہد کو توڑ کر غلبہ حاصل کرلیں، تو ان تمام صورتوں میں وہ علاقہ تین شرطوں سے دارالحرب بن جائے گا وہ یہ کہ احکام کفر اعلانیہ غالب کردئے جائیں۔ یہی قیاس ہے الخ(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب السیر     الباب الخامس فی استیلاء الکفار     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۲۳۲)
درر غرر ملاخسرومیں ہے:
دارالحرب تصیردارالاسلام باجراء احکام الاسلام فیھا کا قامۃ الجمعۃ والاعیادوان بقی فیھا کافر اصلی ولم یتصل بدارالاسلام بان کان بینھا وبین دارالاسلام مصر اٰخر لاھل الحرب ۱؎الخ ھذا لفط العلامۃ خسر و واثرہ شیخی زادہ فی مجمع الانھر، وتبعہ المولی الغزی فی التنویر، واقرہ المدقق العلائی فی الدر، ثم الطحطاوی والشامی اقتدیا فی الحاشیتین۔
دارالحرب، اسلامی احکام جاری  کرنے مثلاً جمعہ اور عیدین وہاں ادا کرنے پر دارالاسلام بن جاتا ہے اگرچہ وہاں کوئی اصلی کافر بھی موجود ہو اور اس کا دارالاسلام سے اتصال بھی نہ ہویوں کہ اس کے اور دارالاسلام کے درمیان کوئی دوسرا حربی شہر فاصل ہو الخ، یہ علامہ خسر وکے الفاظ ہیں، اور مجمع الانہر میں شیخی زادہ نے اس کی پیروی کی ہے، اور مولٰی غزی نے تنویر میں اس کی اتباع کی، اور مدقق علائی نے درمیں اس کو ثابت رکھا، پھر طحطاوی اور شامی نے اپنے اپنے حاشیہ میں اسکی اقتدا کی۔(ت)
 (۱؎ دررغرر  کتاب الجہاد باب المستامن مطبع احمد کامل مصر ۱/ ۲۹۵)
جامع الفصولین سے نقل کیا گیا: لہ ان ھذہ البلدۃ صارت دارالاسلام باجراء احکام الاسلام فیھا فما بقی شیئ من احکام دارالاسلام فیھا تبقی دارالاسلام علی ماعرف ان الحکم اذاثبت بعلۃ فما بقی شیئ من العلۃ یبقی الحکم ببقائہ، ھکذاذکر شیخ الاسلام ابوبکر فی شرح سیر الاصل انتہی،۲؎
امام صاحب کے ہاں دارالحرب کا علاقہ اسلامی احکام وہاں جاری کرنے سے دارالاسلام بن جاتا ہے تو جب تک وہاں اسلامی احکام باقی رہیں گے وہ علاقہ دارالاسلام رہے گا، یہ اس لئے کہ حکم جب کسی علت پر مبنی ہوتو جب تک علت میں سے کچھ پایا جائے تو اس کی بقاء سے حکم بھی باقی رہتا ہے جیسا کہ معروف ہے۔ ابوبکر شیخ الاسلام نے اصل(مبسوط) کے سیر کے باب کی شرح میں یونہی ذکر فرمایا ہے، اھ،
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل الاول فی القضاء     اسلامی کتب خانہ کراچی     ص۱۲)
وعن الفصول العمادیۃ ان دارالاسلام لایصیر دارالحرب اذابقی شیئ من احکام الاسلام وان زال غلبۃ اھل الاسلام وعن منثور الامام ناصرالدین دارالاسلام انما صارت دارالاسلام باجراء الاحکام فمابقیت علقۃ من علائق الاسلام یترجح جانب الاسلام۱؎وعن البرھان شرح مواھب الرحمٰن لایصیر دارالحرب مادام فیہ شیئ منھا بخلاف دارالاسلام لانارجحنا اعلام الاسلام واحکام اعلام کلمۃ الاسلام۲؎ وعن الدر المنتقٰی لصاحب الدرالمختار دارالحرب تصیر دارالاسلام باجراء بعض احکام الاسلام۳؎۔
فصول عمادیہ سے منقول ہے کہ دارالاسلام جب تک وہاں احکام اسلام باقی رہیں گے تو وہ دارالحرب نہ بنے گا اگرچہ وہاں اہلِ اسلام کا غلبہ ختم ہوجائے، امام ناصرالدین کی منثور سے منقول ہے کہ دارالاسلام صرف اسلامی احکام جاری کرنے سے بنتا ہے تو جب تک وہاں اسلام کے متعلقات باقی ہیں تو وہاں اسلام کے پہلو کو ترجیح ہوگی۔ اور برہان شرح مواہب الرحمٰن سے منقول ہے کوئی علاقہ اس وقت تک دارالحرب نہ بنے گا جب تک وہاں کچھ اسلامی احکام باقی ہیں، کیونکہ اسلامی نشانات کو اور کلمہ اسلام کے نشانات کے احکام کو ہم ترجیح دیں گے، دارالاسلام کا حکم اسکے خلاف ہے۔ صاحب درمختار کی المنتقٰی سے منقول ہے کہ دارالحرب میں بعض اسلامی احکام کے نفاذ سے دارالاسلام بن جاتا ہے۔(ت)
 (۱؎ الفصول العمادیۃ )( ۲؎ البرھان شرح مواہب الرحمان)

(۳؎ الدرالمنتقی علی ہامش مجمع الانہر    کتاب السیر         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۲۳۴)
شرح نقایہ میں ہے:
لاخلاف ان دارالحرب تصیردارالاسلام باجراء بعض احکام الاسلام فیھا۴؎۔
بلا اختلاف دارالحرب وہاں بعض اسلامی احکام کے نفاذ سے وہ دارالاسلام بن جاتا ہے(ت)
 (۴؎ جامع الرموز    کتاب الجہاد             مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران     ۴/ ۵۵۶)
اور اسی میں ہے:
وقال شیخ الاسلام والامام الاسبیجابی ای الدارمحکومۃ بدارالاسلام ببقاء حکم واحد فیھا کمافی العمادی وغیرہ۵؎۔
شیخ الاسلام اور امام اسبیجابی نے فرمایا: کسی بھی علاقہ میں کوئی ایک اسلامی حکم بھی باقی ہوتو اس علاقہ کو دارالاسلام کہا جائے گا، جیسا کہ عمادی وغیرہ میں ہے۔(ت)
 (۵؎ جامع الرموز    کتاب الجہاد             مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۴/ ۵۵۷)
پھر اپنے بلاد اور وہاں کے فتن و فساد کی نسبت فرماتے ہیں:
فالاحتیاط یجعل ھذہ البلاد دارالاسلام والمسلمین وان کانت للملاعین والید فی الظاھر لھؤلاء الشیطین ربنا لاتجعلنا فتنۃ للقوم الظلمین ونجنا برحمتک من القوم الکٰفرین کمافی المستصفی وغیرہ۱؎۔
احتیاط یہی ہے کہ یہ علاقہ دارالاسلام والمسلمین قرار دیاجائے، اگرچہ وہاں ظاہری طور پر شیطانوں کاقبضہ ہے، اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے لئے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہمیں کافروں سے نجات عطا فرما، جیسا کہ مستصفٰی وغیرہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الرموز  کتاب الجہاد      مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران     ۴/ ۵۵۷)
Flag Counter